ابان کہتے ہیں کہ بصرہ میں آنے کے بعد میری ملاقات حسن بصری سے ہوئی۔ وہ بھی حجاج کے خوف سے روپوش تھا۔ حسن بصری نے جنگ جمل میں امیر المومنین علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف جنگ کی تھی۔ لیکن بعد میں تو بہ تائب ہوا۔ ان دنوں وہ امیر المومنین علیہ الصلوۃ والسلام کے شیعوں میں سے تھا۔ میں نے حسن بصری سے حجاج بن ابی عتاب ویلیمی کے شرقی مکان میں خفیہ ملاقات کی۔ اور وہ رو پڑا۔ جب میں نے ان کو یہ کتاب دکھائی تو انہوں نے اس کی تصدیق کی کہ سلیم بن قیس ہلالی کی تمام باتیں حق ہیں۔ میں نے بھی امیر المومنین علیہ الصلوۃ والسلام کے معتبر شیعوں اور غیر لوگوں سے ایسا ہی سنا ہے۔
Aban narrates that after arriving in Basra, I met Hasan al-Basri. He too was hiding in fear of Hajjaj. Hasan Al Basri had fought against Ameer Al Momineen (a.s) in the Battle of Jamal, but later he repented and sought forgiveness. During those days, he was among the Shia of Ameer Al Momineen (a.s). I secretly met Hasan Al Basri in the eastern house of Hajjaj bin Abi Atab Wilaymi. He wept, and when I showed him this book, he confirmed that all the statements of Sulaim bin Qais Hilali were true. He said that he had heard the same from the trusted Shia of Ameer Al Momineen (a.s) and from other sources as well.
قال أبان: لما قدمت البصرة لقيت الحسن البصري، وكان مختفياً خوفاً من الحجاج. كان الحسن البصري قد قاتل ضد أمير المؤمنين عليه السلام في معركة الجمل، لكنه تاب بعد ذلك. وكان في تلك الأيام من شيعة أمير المؤمنين عليه السلام. التقيت بالحسن البصري سراً في بيت شرقي تابع للحجاج بن أبي عتاب. بكى عندما أريته هذا الكتاب، وأقرَّ أن كل ما قاله سليم بن قيس الهلالي هو الحق. وقد سمعت ذلك من شيعة أمير المؤمنين عليه السلام الموثوقين ومن غيرهم.