امیر علیہ السلام کے لئے بشارت:
سلیم بن قیس ہلالی بیان کرتے ہیں کہ مجھے امیر المومنین علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہمراہ مدینہ کی بعض گلیوں میں جارہا تھا۔ یہاں تک کہ ہم ایک باغ میں پہنچ گئے۔ میں نے عرض کیا یارسول اللہ کس قدر خوبصورت باغ ہے؟ پیغمبر اکرم نے فرمایا بے شک خوبصورت ہے لیکن تیرے لئے بہشت میں اس سے بھی زیادہ خوبصورت باغ ہو گا۔ اس طرح ہم نے سات باغات دیکھے اور میرے اور رسول اللہ کے درمیان ایسا ہی مکالمہ ہوا۔ جب ہم راستہ طے کر چکے تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مجھے گلے سے لگا لیا اور گریہ فرمایا۔
میں نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ نے گریہ کیوں کیا، تو فرمایا، لوگوں کے دلوں میں بدر کی رنجشیں اور اُحد کے کینے پوشیدہ ہیں۔ وہ میرے بعد ظاہر کریں گے۔ میں نے پوچھا یا رسول اللہ کیا میرا دین سلامت ہوگا۔ تو فرمایا کہ ہاں تمہارا دین سلامت ہو گا۔ اے علی تمہیں بشارت ہو۔ تیری زندگی اور موت میرے ساتھ ہوگی۔ تم میرے بھائی، وصی، برگزیدہ، وزیر، وارث، میری طرف سے ادا کرنے والے اور میرا قرض ادا کرنے والے ہو۔ میری طرف سے وعدے پورے کرنے والے، میری ذمہ داری کو ادا کرنے والے، میری امانت کو ادا کرنے والے، تم میری سنت پر میری اُمت کے ناكثين (جمل والوں) ، قاسطین (صفین والوں) اور مارقین (نہروان والوں) سے جنگ کرو گے۔ قریش کے مظالم پر صبر کرنا اور ان کے اتحاد سے بچتے رہنا۔ بے شک تجھے مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون علیہ السلام کو موسیٰ علیہ السلام سے تھی۔ موسیٰ علیہ السلام نے ہارون علیہ السلام کو خلیفہ بناتے وقت حکم دیا تھا کہ اگر لوگ گمراہ ہو جائیں اور مددگار مل جائیں تو ان کے ذریعے مخالفین سے جنگ کرنا اور اگر مددگار نہ ملیں تو اپنے ہاتھ کو روک دینا اور اپنے خون کو محفوظ کرنا اور ان کے درمیان تفریق پیدا نہ کرنا۔
اے علی ! اللہ تعالیٰ نے جس رسول کو بھی معبوث فرمایا ہے تو ایک قوم اس پر بہ رضاور غبت ایمان لائی اور دوسری قوم ناخوشی سے حلقہ اسلام میں داخل ہوئی۔ جو لوگ ناخوشی سے اسلام میں داخل ہوئے ان کو ان پر مسلط کیا۔ جو خوشی سے ایمان لائے وہ قتل ہوئے تاکہ ان کا اجر و ثواب زیادہ ملے۔ اور ناخوشی والوں کے عذاب میں اضافہ ہو۔ اے علی جس امت نے بھی اپنے نبی کے بعد اختلاف کیا اس کا نتیجہ یہی ہوا کہ جاہل لوگ اُمت کے اہل حق پر غالب آئے اور بے شک اللہ تعالیٰ نے اس اُمت کے لئے تفریق اور اختلاف مقدر کیا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ان سب کو ہدایت پر جمع کر دیتا۔ اس کی مخلوق میں سے دو آدمی بھی اختلاف نہ کرتے اور نہ اس کے حکم میں جھگڑا کرتے اور نہ ہی کمتر آدمی اپنے سے بہتر کی فضیلت کا انکار کرتا۔
اگر اللہ چاہتا تو سزا جلد مقرر کرتا مگر اس نے ڈھیل دے دی تاکہ ظالم کی تکذیب کی جائے اور حق اپنے مقام پر معلوم کیا جائے۔ باری تعالیٰ نے دنیا کو عمل کی جگہ مقرر کیا اور آخرت کو ہمیشہ رہنے کی جگہ تاکہ وہ برے آدمیوں کو ان کی برائی کا بدلہ اور نیک لوگوں کو ان کی نیکیوں کا اجر دے۔ یہ سن کر میں نے کہا کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں۔ میں اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرتا ہوں اور اس کے اُمت حان پر صبر کرتا ہوں۔ اس کی قضا کو تسلیم کرتا ہوں اور رضامند ہوں۔
Sulaim bin Qais al-Hilali narrates that the Commander of the Faithful (A.S) told me, “I was once walking with the Prophet (S.A.W.W) in some streets of Medina, until we reached a garden. I remarked, ‘O Messenger of Allah, how beautiful this garden is!’ The Prophet replied, ‘Indeed, it is beautiful, but there will be an even more beautiful garden for you in Paradise.’ Thus, we passed through seven gardens, and the same exchange occurred between us each time. When we had traveled further, the Prophet embraced me and began to weep.”
I asked, “O Messenger of Allah, why are you weeping?” He replied, “There are grudges from the Battle of Badr and the enmities of Uhud hidden in people’s hearts, which they will reveal after me.” I asked, “O Messenger of Allah, will my faith remain safe?” He said, “Yes, your faith will remain safe. O Ali, rejoice! Your life and death will be with me. You are my brother, my successor, my chosen one, my minister, my inheritor, and the one who fulfills my obligations and debts on my behalf. You will fulfill my promises, uphold my responsibilities, and protect my trust. In adherence to my Sunnah, you will fight against the Nakithin (those who broke the pledge at Jamal), Qasitin (those who opposed at Siffin), and Mariqin (those who deviated at Nahrawan). Endure the oppression of the Quraysh and be cautious of their unity. Indeed, you have the same status with me as Harun had with Musa (peace be upon them). When Musa appointed Harun as his successor, he instructed him: if people go astray and you find supporters, fight the opposition through them. But if you lack supporters, hold your hand back, save yourself, and do not divide them.”
O Ali! Allah has sent every Prophet with a group that accepts them willingly, while another group joins unwillingly. Those who entered Islam reluctantly were imposed upon those who entered willingly. The faithful were martyred so their rewards increased, while the punishment of the reluctant ones intensified. Every community that differed after its Prophet saw ignorant people overpower those who followed the truth. Indeed, Allah has destined this community for division and discord. Had Allah willed, He could have united them all on guidance; then no two people would have differed in His creation. The lesser would not have denied the rank of the superior.
If Allah wanted, He would hasten retribution, but He grants respite to test the patience of the unjust and to distinguish truth from falsehood. Allah made this world a place for action and the Hereafter an everlasting abode, to reward the wicked for their evil and the righteous for their goodness.”
Hearing this, I said, “All praise belongs to Allah. I am grateful for His blessings. I will endure the hardships of this nation, submit to His decree, and be content with His will.”
يروي سُليم بن قيس الهلالي أن أمير المؤمنين (عليه السلام) قال لي: “كنت مرة مع النبي (صلى الله عليه وآله وسلم) في بعض شوارع المدينة حتى وصلنا إلى بستان. قلت، يا رسول الله، ما أجمل هذا البستان! فأجاب النبي: ‘نعم، إنه جميل، ولكن سيكون لك بستان أجمل منه في الجنة.’ وهكذا مررنا بسبعة بساتين وكان بيننا نفس الحوار في كل مرة. ولما سرنا قليلاً، احتضنني النبي وبدأ يبكي.”
فقلت، “يا رسول الله، لماذا تبكي؟” فقال، “إن هناك ضغائن من بدر وأحقاد أحد مخفية في قلوب الناس، وسوف يُظهرونها بعدي.” فسألت، “يا رسول الله، هل سيكون ديني سالماً؟” فقال، “نعم، سيكون دينك سالماً. يا علي، بُشراك! حياتك وموتك ستكون معي. أنت أخي، وصيي، مختاري، وزيري، وارثي، المؤدي عني، والموفي ديني وديوني. ستتم تعهداتي وتؤدي واجباتي وتحافظ على أمانتي. اتباعاً لسنتي، ستقاتل الناكثين (أصحاب الجمل)، والقاسطين (أصحاب صفين)، والمارقين (أصحاب النهروان). اصبر على مظالم قريش واحذر اتحادهم. إنك لدي كنسبة هارون إلى موسى (عليهما السلام). عندما عيّن موسى هارون خليفةً، أمره: إن ضل الناس ووجدت مؤيدين فقاتل المعارضين بهم، وإن لم تجد أعواناً فاكفف يدك، واحتفظ بدمك، ولا تفرقهم.”
يا علي! إن الله قد بعث كل رسول بقوم دخلوا في دينه برغبة، وآخرين دخلوا على مضض. وأولئك الذين دخلوا بالإكراه وُضعوا فوق أولئك الذين آمنوا برضا. واستشهد المؤمنون ليتضاعف ثوابهم، وزاد عذاب المترددين. وكل أمة اختلفت بعد نبيها غلب فيها الجهال على أهل الحق. لقد قدّر الله لهذه الأمة الفُرقة والخلاف. ولو شاء الله لجمعهم جميعاً على الهدى، ولما اختلف اثنان من خلقه، ولما أنكر الدوني فضل الأفضل.
ولو أراد الله لعجّل العقوبة، لكنه يعطي الفرصة ليمتحن صبر الظالمين ويميز الحق عن الباطل. لقد جعل الله الدنيا دار عمل والآخرة دار مقام دائم، ليجازي السيئين على سوءهم والصالحين على إحسانهم.”
عند سماع هذا، قلت، “الحمد لله. أنا شاكر لنعمه، وأصبر على مشاق هذه الأمة، وأخضع لقضائه وأرضى بقدره.”