سلیم بن قیس ہلالی روایت کرتے ہیں کہ میں نے براء بن عازب کو کہتے ہوئے سنا کہ، میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زندگی اور وفات کے بعد سب سے زیادہ بنی ہاشم سے محبت کرتا تھا۔ جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے انتقال کا وقت قریب آیا تو انہوں نے جناب علی سے وصیت کی کہ تم مجھے غسل دینا۔ تمہارے سوا کسی کو جائز نہیں کہ رسول اللہ کو غسل کے دوران دیکھے ورنہ اس کی بینائی ضائع ہو جائے گی۔ جبرائیل فرشتوں کی ایک جماعت کے ساتھ غسل میں تمہاری امداد کریں گے۔ لہذا جب امیر المومنین علیہ الصلوۃ والسلام، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو غسل دے رہے تھے اور ابن عباس آنکھوں پر پٹی باندھے پانی ڈال رہے تھے اور فرشتے آپ کے پہلو بدل رہے تھے جیسا کہ آپ چاہتے تھے۔ جناب علی نے ارادہ کیا کہ آپ کی قمیض اتار کر غسل دیں تو ایک آواز دینے والے نے آواز دی اے علی اپنی نبی کی قمیض کو مت اتارو۔ لہذا جناب علی نے قمیض کے اندر ہاتھ ڈال کر آپ کو غسل دیا بعد میں رسول اللہ کو حنوط کیا اور کفن دیا۔ اور تکلفین و تحجہیز کے بعد قمیض کو اتارا۔ براء بن عازب نے کہا جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا انتقال ہوا تو مجھے خوف لاحق ہوا کہ قریش بن ہاشم سے خلافت چھین لیں گے۔ جب لوگوں نے ابو بکر بن قحافہ کے معاملے میں کچھ طے کرنا تھا کر لیا تو میں وفات رسول کے غم میں رو رہا تھا۔ میں ادھر ادھر جاتا تھا اور لوگوں کے حالات معلوم کرتا تھا۔ بنی ہاشم رسول اللہ کے غسل و کفن میں مصروف تھے۔
مجھے سعد بن عبادہ اور اس کے معزز دوستوں کی بات معلوم ہو گئی تھی۔ میں ان کے پاس نہیں گیا میں سرداران قریش کی تلاش میں تھا۔ مجھے ابو بکر بن قحافہ اور عمر بن خطاب کہیں دکھائی نہ دیئے۔ تھوڑی دیر بعد میں نے ابو بکر بن قحافہ و عمر کو مع ابو عبیدہ سقیفہ والوں کے پاس آتے ہوئے دیکھا۔ سقیفہ والے یمن کے علاقے صنعار کی بنی ہوئی چادریں پہنے ہوئے تھے۔ جو آدمی بھی ان کے قریب سے گزرتا تھا وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر ابو بکر بن قحافہ کے ہاتھ پر رکھ دیتے خواہ وہ راضی ہوتا یا نہیں۔ رسول اللہ کی وفات کے باعث اور اس واقعہ کی وجہ سے میری عقل جواب دے رہی تھی میں فوراً وہاں سے نکلا اور مسجد میں آیا۔ پھر وہاں سے نکلا اور بنی ہاشم کے گھر آیا۔ ان حضرات کا دروازہ بند تھا میں نے دروازہ کھٹکھٹایا اور یا اہلبیت کہہ کر آواز دی۔ ابن عباس باہر تشریف لے آئے میں نے آپ کی خدمت میں عرض کی کہ لوگوں نے ابو بکر بن قحافہ کی بیعت کر لی ہے۔ ابن عباس نے جواب دیا کہ خلافت کے بارے میں تمہاری ساری امیدیں ہمیشہ کے لئے خاک میں مل گئیں۔ میں نے تمہیں حصول خلافت کے لئے کہا تو تم لوگوں نے میری نافرمانی کی۔ جس کی وجہ سے میں اپنے دل میں کڑھتا ہوں۔
براء بن عازب نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا، جب رات ہوئی تو میں مسجد کی طرف روانہ ہوا۔ جب مسجد میں داخل ہوا تو میرے کانوں میں ابھی تک پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قرآن پڑھنے کی آواز گونج رہی تھی۔ اور میرے دل میں اثر کر رہی تھی۔ مسجد سے نکل کر میں بنی بیاضہ کے میدان کی طرف چلا گیا۔ وہاں لوگوں کا ایک گروہ سرگوشیاں کر رہا تھا۔ ان میں مقداد، ابوذر، سلمان فارسی، عمار یاسر، عبادہ بن حارث، حذیفہ یمانی اور زبیر بن عوام تھے۔ حذیفہ نے کہا، خدا کی قسم جس واقع کی میں نے تمہیں اطلاع دی ہے۔ وہ ضرور اس کام کو سرانجام دیں گے۔ اللہ کی قسم میں نے نہ کبھی جھوٹ بولا ہے اور نہ کبھی میری بات جھوٹی ثابت ہوئی ہے۔ حذیفہ نے کہا میرے ساتھ ابی بن کعب کے پاس چلو۔ ہم سب لوگ ابی بن کعب کے گھر گئے تو انہوں نے دروازہ نہیں کھولا اور کہا کہ میری وہی بات ہے جو حذیفہ یمانی کی بات ہے لیکن میں دروازہ نہیں کھولوں گا ورنہ میرا وہی حشر ہو گا جو تم سب کا ہونے والا ہے۔
یہ بات ابو بکر بن قحافہ اور عمر کو معلوم ہو گئی۔ دونوں نے ابو عبیدہ بن جراح اور مغیرہ بن شعبہ کو بلایا۔ ان چاروں حضرات نے اس واقعہ کے متعلق آپس میں مشورہ کیا۔ مغیرہ بن شعبہ نے کہا میری رائے یہ ہے کہ تم عباس بن عبد المطلب سے ملو اور اسے اس بات کا لالچ دو کہ خلافت میں ان کا اور ان کے بعد ان کی اولاد کا کچھ حصہ مقرر ہوگا۔ اگر تم نے ایسا کیا تو تمہارا پیچھا علی ابن ابی طالب سے چھوٹ جائے گا۔ اگر تمہارے ساتھ عباس بن ابی مطلب متفق ہو گئے تو تمہارے ہاتھ ایک دلیل آجائے گی۔ تنہا علی کا معاملہ تمہارے لئے آسان ہو جائے گا۔
I heard Bara bin Azib say, “In the lifetime of the Holy Prophet (PBUH) and after his demise, I loved the Banu Hashim the most. When the time of the Holy Prophet’s (PBUH) passing drew near, he made a will to Ali (AS): ‘You will give me the ritual washing (Ghusl). No one except you is permitted to see me during the washing; otherwise, he will lose his eyesight. Jibrael, along with a group of angels, will assist you in this task.’ Therefore, when Amir-ul-Momineen (AS) was washing the Prophet (PBUH), Ibn Abbas was pouring water blindfolded, and angels were turning his sides as needed. When Ali intended to remove the Prophet’s shirt for the washing, a voice called out, ‘O Ali, do not remove your Prophet’s shirt.’ Hence, Ali placed his hands inside the shirt and washed him. Afterward, the Prophet (PBUH) was embalmed and shrouded. Only after completing the burial preparations did Ali remove the shirt.
Bara bin Azib continued, “When the Holy Prophet (PBUH) passed away, I feared that Quraysh would seize the caliphate from Banu Hashim. When people concluded their agreement regarding Abu Bakr bin Abi Quhafa, I was mourning the Prophet’s death and roamed around gathering information about people’s actions. Banu Hashim were busy with the Prophet’s (PBUH) washing and shrouding.
I became aware of what Saad bin Ubadah and his honorable companions were discussing, but I did not join them. Instead, I searched for the Quraysh leaders. I could not find Abu Bakr bin Abi Quhafa and Umar bin Khattab. After some time, I saw Abu Bakr, Umar, and Abu Ubaidah heading towards Saqifah. The people at Saqifah were wearing Yemeni cloaks. Whoever passed by them was forcibly made to pledge allegiance to Abu Bakr, whether they agreed or not. The shock of the Prophet’s death and this event left me bewildered. I left for the mosque, then went to Banu Hashim’s house, where the door was shut. I knocked and called out, ‘O people of the household.’ Ibn Abbas came out, and I informed him that people had pledged allegiance to Abu Bakr. He replied, ‘All your hopes for the caliphate have been buried forever. I advised you to secure the caliphate, but you disobeyed me, and now I bear this grief in my heart.’
Bara bin Azib continued, “At night, I went to the mosque, and the echoes of the Prophet’s (PBUH) recitation of the Qur’an still resonated in my ears and affected my heart. Leaving the mosque, I went to the plain of Banu Bayadha, where a group of people, including Miqdad, Abu Dharr, Salman al-Farsi, Ammar Yasir, Ubada bin Harith, Hudhayfah al-Yamani, and Zubair bin al-Awam, were whispering. Hudhayfah said, ‘By God, what I warned you of will surely happen. By God, I have neither lied nor have my words ever been proven false.’ He added, ‘Come with me to Ubayy ibn Ka’b.’ When we reached his house, Ubayy did not open the door, saying, ‘My stance is the same as Hudhayfah’s, but I will not open the door; otherwise, I will face the same fate as all of you.’
This news reached Abu Bakr and Umar. They summoned Abu Ubaidah ibn al-Jarrah and Mughira bin Shu’ba. These four consulted each other on the matter. Mughira suggested, ‘Meet Abbas bin Abdul Muttalib and entice him by offering a share in the caliphate for him and his descendants. If Abbas agrees, it will weaken Ali’s position, and with Abbas on your side, Ali will be isolated.'”
سلیم بن قیس الهلالي يروي: سمعتُ البراء بن عازب يقول: “كنتُ أحبُّ بني هاشم حبًّا شديدًا في حياة النبي صلى الله عليه وآله وسلم وبعد وفاته. وعندما اقتربت وفاة النبي صلى الله عليه وآله وسلم، أوصى عليًا عليه السلام قائلاً: أنتَ تغسّلني، ولا يحل لأحد غيرك أن يراني أثناء الغسل، ومن فعل ذلك فسيُفقد بصره. جبرائيل مع جماعة من الملائكة سيعاونونك في الغسل.
فلما بدأ أمير المؤمنين عليه الصلاة والسلام بتغسيل النبي صلى الله عليه وآله وسلم، كان ابن عباس معصوب العينين يصب الماء، والملائكة يقلبونه كما يريد. وعندما أراد علي عليه السلام خلع قميص النبي صلى الله عليه وآله وسلم، ناداه منادٍ: يا علي، لا تخلع قميص نبيك. فأدخل يده من تحت القميص وغسله، ثم حنّطه وكفّنه. وبعد التجهيز، نزع القميص.
قال البراء بن عازب: عند وفاة النبي صلى الله عليه وآله وسلم، خفتُ أن تستولي قريش على الخلافة من بني هاشم. وعندما اجتمع الناس على بيعة أبي بكر بن أبي قحافة، كنتُ أبكي حزنًا على وفاة النبي صلى الله عليه وآله وسلم وأراقب الأوضاع.
علمتُ بأمر سعد بن عبادة وأصحابه، لكنني لم أذهب إليهم بل كنتُ أبحث عن كبار قريش. ولم أجد أبا بكر وعمر في أي مكان، ثم رأيتهم قادمين مع أبي عبيدة إلى سقيفة بني ساعدة. كان أهل السقيفة يلبسون أردية من صُنعاء، وكل من مرّ بهم أخذوا بيده ووضعوها في يد أبي بكر للبيعة سواء رضي أم لم يرضَ.
كنتُ مذهولًا من وفاة النبي صلى الله عليه وآله وسلم ومن هذه الأحداث، فخرجتُ وتوجهت إلى المسجد ثم إلى بيت بني هاشم. طرقت الباب وناديت: يا أهل بيت النبوة! خرج ابن عباس وأخبرته ببيعة الناس لأبي بكر، فقال: لقد ضاعت آمالكم في الخلافة إلى الأبد.
واصل البراء بن عازب حديثه: وعندما حلّ الليل، توجهتُ إلى المسجد وسمعتُ صوت تلاوة النبي صلى الله عليه وآله وسلم وكأنها ما زالت ترنُّ في أذني. ثم خرجتُ إلى ساحة بني بياضة، حيث كان مجموعة من الصحابة يتحدثون سرًا: المقداد، أبو ذر، سلمان الفارسي، عمار بن ياسر، عباد بن حارث، حذيفة اليماني، والزبير بن العوام.
قال حذيفة: والله، سيحدث ما أخبرتكم به. والله، لم أكذب قط ولن يُكذّبني أحد. اقترح حذيفة أن نذهب إلى أُبي بن كعب. وعندما وصلنا إلى بيته، رفض فتح الباب وقال: رأيي مثل رأي حذيفة، ولكنني لن أفتح الباب حتى لا يصيبني ما سيصيبكم.
علم أبو بكر وعمر بالأمر، فاستدعوا أبا عبيدة بن الجراح والمغيرة بن شعبة. قال المغيرة: رأيي أن تلتقوا بالعباس بن عبد المطلب وتغروه بجعل له ولأبنائه نصيبًا في الخلافة، فإذا وافق، ستحصلون على حجة قوية، وسيسهل عليكم أمر علي بن أبي طالب.”