Hadith Page
ابو بکر بن قحافہ کی عباس بن ابی مطلب سے ملاقات

لہذا دوسری رات ابو بکر بن قحافہ و عمر دونوں عباس بن عبد المطلب کے پاس گئے تو ابو بکر بن قحافہ نے اللہ کی حمد و ثنا کے بعد کہا، “بے شک اللہ تعالیٰ نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو تمہارے لئے نبی اور مومنین کے لئے ولی بنا کر بھیجا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص احسان ہے کہ رسول اللہ کو انہیں میں سے معبوث کیا۔ جو کچھ اللہ تعالیٰ کے پاس تھا وہ سب کچھ رسول اللہ کے لئے پسند کیا۔ رسول اللہ نے خلافت کا معاملہ لوگوں کی مرضی پر چھوڑ دیا۔ جس کو چاہیں بلا اختلاف متفق ہو کر اپنا خلیفہ چن لیں۔ لوگوں نے مجھے اپنا خلیفہ چن لیا ہے اور اپنے امور کا مجھے نگہبان قرار دیا ہے۔ میں نے ان لوگوں کی بات کو قبول کر لیا ہے۔ مجھے اللہ تعالیٰ کی تائید سے کاہلی، پریشانی اور بزدلی کا خوف نہیں۔ لیکن ہر وقت میرے معاملے میں طعن و تشنیع سے کام لیا جاتا ہے۔ علی عوام الناس سے الگ ہو کر دوسری باتیں بیان کرتے ہیں۔

علی نے تم لوگوں کو اپنا جائے پناہ بنا رکھا ہے۔ تم اس کے مضبوط قلعہ بنے ہوئے ہو۔ تم علی کے حق میں مسلسل پروپیگنڈہ کرتے رہتے ہو۔ تم یا تو لوگوں کی اس بات پر اتفاق کر لیتے جس پر انہوں نے اتفاق اور اجماع کر لیا ہے یا لوگوں کو جس بات پر وہ جھک گئے ہیں روک لیتے۔ ہم یہاں صرف اس غرض سے آئے ہیں کہ خلافت میں سے تمہارا کچھ حصہ مقرر کر دیا جائے جو آپ کی اولاد کو ملتا رہے گا۔ اس میں شک نہیں کہ آپ رسول اللہ کے چاہنے والے ہیں اور آپ کی منزلت کسی سے مخفی نہیں۔ لوگ تمہارے ساتھ علی کو بھی جانتے ہیں اور ان کی محبت اور فضیلت کا اقرار کرتے ہیں۔ مگر خلافت کے معاملے میں لوگوں نے تم دونوں کو بے توجہی کی نظر سے دیکھا ہے۔

عمر بن خطاب نے کہا، اے اولاد بنی ہاشم، رسول اللہ ہم اور تم دونوں سے تعلق رکھتے تھے۔ ہمیں تمہارے پاس آنے کی ضرورت نہ تھی۔ لیکن ہم اس بات کو ناپسند کرتے ہیں کہ جس بات پر عام مسلمانوں نے اتفاق کر لیا ہے اس میں عیب جوئی کی جائے۔ تمہارے اور عام لوگوں میں جھگڑے پیدا ہو جائیں۔ تم اپنے اور مسلمانوں پر رحم کرو۔

حضرت عباس نے جواب دیا، بے شک تم نے جو کچھ بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے جناب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو نبی بنا کر بھیجا اور ان کو مومنین کا سردار مقرر کیا۔ اگر تم نے خلافت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے رشتے کی وجہ سے حاصل کیا ہے تو تم نے ہمارے حق کو غصب کیا ہے۔ اگر تم نے خلافت کو مومن ہونے کی وجہ سے حاصل کیا ہے تو ہم بھی مومن ہونے کے زمرے میں شامل ہیں۔ ہم اس معاملے میں تمہارے شریک کار نہ ہوئے اور نہ ہی تم نے ہم سے مشورہ حاصل کیا۔ ہم تمہارے لئے خلافت کو ناجائز تصور کرتے ہیں۔ تمہارا یہ قول کہ تم میرے لئے خلافت سے کچھ حصہ مقرر کروگے تو یہ اصولاً غلط ہے۔ اگر خلافت تمہارا حق ہے تو اسے اپنے لئے مخصوص رکھو، ہم تمہارے محتاج نہیں ہیں۔ اگر خالص مومنین کا حق ہے تو ہم اس بات پر کیسے رضامند ہو جائیں کہ کچھ تم سے لے لیں اور بقیہ تمہارے حوالے کر دیں۔ اے عمر، تمہارا یہ کہنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہم اور تم دونوں میں سے تھے یہ بھی درست نہیں۔ رسول اللہ ایک شجر کی مانند تھے جس کی شاخیں ہم ہیں۔ اور تم ہمسائیوں کی مانند ہو۔ اس لحاظ سے ہم تم سے افضل ہیں۔ تمہارا یہ قول کہ تمہیں ہم سے جھگڑنے کا خوف ہے تو یہ وہ کام ہے جو تم پہلے ہی کھڑا کر چکے ہو۔ حضرت عباس کی تقریر کے بعد وہ لوگ واپس چلے گئے۔ حضرت عباس نے کہا کہ یہ تمہاری بیعت اسلام میں پہلا فتنہ ہے۔

Text copied!
The Meeting of Abu Bakr Ibn Abi Quhafa with Abbas Ibn Abdul Muttalib

On the second night, Abu Bakr ibn Abi Quhafah and Umar both went to Abbas ibn Abdul Muttalib. After praising and glorifying Allah, Abu Bakr said, “Indeed, Allah sent the Prophet Muhammad (peace and blessings be upon him and his progeny) as a Messenger to you and a guardian for the believers. It is a great favor of Allah that He raised the Messenger from among you and chose for him all that is with Him. The Messenger of Allah left the matter of succession to the people, allowing them to unanimously choose whomever they wished as their leader. The people have chosen me as their leader and entrusted me with their affairs. I have accepted their decision. With Allah’s support, I do not fear indolence, difficulties, or cowardice. However, I continually face criticism and blame regarding my leadership. Ali has distanced himself from the people and shares other perspectives.

Ali has taken you (the Banu Hashim) as his refuge, and you have become his stronghold. You continue to advocate for Ali and propagate in his favor. Either you agree with the decision upon which the people have unanimously settled, or you deter the people from the path they have chosen. We have come here solely to offer you a share in the caliphate, a portion that will remain with your descendants. There is no doubt about your love for the Messenger of Allah and your esteemed position, which is known to all. People also acknowledge Ali’s virtues and his elevated status. However, regarding the caliphate, the people have turned their attention away from you both.

Umar ibn Khattab added, ‘O descendants of Banu Hashim, the Messenger of Allah was related to both us and you. We had no need to approach you, but we dislike any discord over what the majority of Muslims have agreed upon. We wish to prevent disputes between you and the general community. Have mercy upon yourselves and upon the Muslims.’

Abbas replied, ‘Indeed, what you have stated is true: Allah sent the Prophet Muhammad (peace be upon him and his progeny) as a Messenger and made him a leader for the believers. However, if you claim the caliphate based on your relationship with the Messenger of Allah, then you have usurped our right. If you claim it based on faith, then we too are believers. In this matter, you neither consulted us nor involved us, and we do not recognize your leadership as legitimate. As for your offer to allot me a share in the caliphate, this is fundamentally flawed. If the caliphate is your rightful possession, then keep it entirely for yourselves; we have no need of it. But if it is the right of the believers, how can we accept a portion of it from you and leave the rest to you?

As for your statement, O Umar, that the Messenger of Allah was related to both us and you, this is incorrect. The Messenger of Allah is like a tree, and we are its branches, while you are merely its neighbors. By this measure, we are superior to you. Regarding your claim that you fear discord from us, this is a conflict that you yourselves have already initiated.’

Following Abbas’s speech, the two men departed. Abbas then remarked, ‘This allegiance is the first trial in Islam.’

Text copied!
لقاء أبو بكر بن أبي قحافة مع العباس بن عبد المطلب

لذلك في الليلة الثانية ذهب أبو بكر بن أبي قحافة وعمر إلى العباس بن عبد المطلب. وبعد أن حمد الله وأثنى عليه، قال أبو بكر: “إن الله قد بعث النبي محمدًا (صلى الله عليه وآله) رسولًا إليكم وجعلَه وليًا للمؤمنين. وكان فضل الله عظيمًا أن اختار رسول الله من بينكم وفضله بما عنده. لقد ترك رسول الله أمر الخلافة للناس ليختاروا بالإجماع من يشاؤون. وقد اختارني الناس كقائد لهم ووكّلوا إليّ أمورهم. وقد قبلت قرارهم. وبعون الله، لا أخشى الكسل أو المشقة أو الجبن. ولكنني أواجه باستمرار الانتقاد واللوم بشأن قيادتي. أما علي فقد انعزل عن الناس ويدلي برؤى مختلفة.

لقد جعل علي منكم (بني هاشم) ملجأً له، وأصبحتم حصنه المنيع. أنتم تواصلون الدفاع عنه والدعاية لصالحه. إما أن توافقوا على القرار الذي أجمع عليه الناس، أو تمنعوا الناس من المسار الذي اختاروه. لقد جئنا هنا فقط لنقترح لكم نصيبًا من الخلافة يكون موروثًا بين ذريّتكم. لا شك في محبتكم لرسول الله ومكانتكم التي يعرفها الجميع. كما أن الناس يقرّون بفضل علي ومكانته العالية. ومع ذلك، فيما يخص الخلافة، فقد صرف الناس نظرهم عنكما معًا.

ثم قال عمر بن الخطاب: “يا بني هاشم، كان رسول الله منا ومنكم. لم تكن لنا حاجة إلى القدوم إليكم، ولكننا نكره أي خلاف بشأن ما أجمع عليه عامة المسلمين. نرغب في تجنب النزاعات بينكم وبين المجتمع العام. فارحموا أنفسكم والمسلمين.”

فأجاب العباس: “إن ما ذكرته صحيح؛ فقد بعث الله النبي محمدًا (صلى الله عليه وآله) رسولًا وجعله قائدًا للمؤمنين. ولكن، إن كنتم تزعمون أنكم نلتم الخلافة بسبب قربكم من رسول الله، فقد اغتصبتم حقنا. وإن كنتم تدّعون أنها بسبب الإيمان، فنحن أيضًا من المؤمنين. ومع ذلك، لم تشاورونا في هذا الأمر ولم تشركونا فيه. ونحن لا نرى قيادتكم شرعية. أما عرضكم أن تمنحونا نصيبًا من الخلافة، فهذا عرض غير مقبول من حيث المبدأ. إن كانت الخلافة حقكم، فاحتفظوا بها لأنفسكم؛ لسنا بحاجة إليها. وإن كانت حقًا للمؤمنين، فكيف نرضى أن نأخذ جزءًا منها منكم ونترك الباقي لكم؟

أما قولك، يا عمر، إن رسول الله كان منا ومنكم، فهذا غير صحيح. رسول الله كشجرة، ونحن أغصانها، وأنتم جيرانها فقط. وبناءً على هذا، نحن أفضل منكم. وأما زعمك أنك تخشى الخلاف منا، فهذا النزاع هو ما بدأتموه بأنفسكم.”

وبعد خطاب العباس، غادر الرجلان. ثم قال العباس: “إن هذه البيعة هي أول فتنة في الإسلام.”

Text copied!

Other Hadiths

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *