ابان نے اسی سال حج کیا اور جناب امام زین العابدین علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس وقت آپ کے پاس ابو طفیل عامر بن واثلہ صحابی رسول موجود تھے۔ ابوطفیل، امیر المومنین علیہ الصلوۃ والسلام کے بہترین اصحاب میں سے تھے۔ اور امام کے پاس اس وقت عمر بن ام سلمہ رضی اللہ بھی موجود تھے۔ میں نے اس کتاب کو امام کی خدمت میں پیش کیا۔ آپ تین دن تک تشریف فرما رہے۔ ہر صبح کو عمر بن ام سلمہ اور عامر بن واثلہ آتے اور یہ کتاب امام کو پڑھ کر سناتے (تاکہ دیگر حاضرین بھی سن لیں)۔ جناب امام علی زین العابدین علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا، “یہ تمام احادیث ہماری ہیں اور ہم ان کو جانتے ہیں۔”
ابان نے امام کی خدمت میں عرض کیا کہ میں آپ پر قربان جاؤں اس کتاب میں بعض ایسی چیزیں ہیں کہ میرا سینہ تنگ ہو گیا ہے۔ کیونکہ اس میں آپ اور آپ کے شیعوں کے علاوہ تمام امت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ہلاکت موجود ہے۔ خاص طور پر بڑے بڑے مہاجر، انصار اور تابعین کی؟ امام زین العابدین علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا، “بھائی عبد القیس کیا تم نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی یہ حدیث نہیں سنی جس میں آپ کا ارشاد گرامی ہے، “میرے اہلبیت کی مثال میری امت میں ایسی ہے جیسے نوح علیہ السلام کی کشتی اس کی اُمت میں۔ جو اس کشتی پر سوار ہو گیا وہ نجات پا گیا۔ اور جس نے اسے چھوڑ اوہ غرق ہو گیا۔ اور میرے اہلبیت کی مثال میری اُمت میں بنی اسرائیل کے باب حطہ کی طرح ہے۔”
میں نے کہا کہ جی ہاں ، میں نے یہ حدیث سنی ہے۔ امام نے فرمایا، “کس سے سنی ہے ؟” میں نے کہا یہ تو بہت مشہور حدیث ہے اور سو سے زیادہ فقہا سے سنی ہے۔ جناب ابو ذر سے سنی ہے جب وہ خانہ کعبہ کی زنجیر کو پکڑ کر زور زور سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے حوالے سے یہ حدیث بیان کر رہے تھے۔ امام نے پوچھا اور کس سے سنی ہے ؟ میں نے کہا حسن بصری سے سنی ہے۔ جناب مقداد نے امیر المومنین علیہ الصلوۃ والسلام سے سنی ہے۔ سعید بن مسیب، حلقمہ بن قیس ابوظبیان جنبی اور عبدالرحمن بن ابولیلی سے۔ ابوطفیل اور عمر بن ام سلمہ نے کہا، “خدا کی قسم ہم نے اس حدیث کو جناب ابوذر اور امیر المومنین علیہ الصلوۃ والسلام سے اور جناب سلمان فارسی سے اور مقداد سے سنا ہے۔ اس کے بعد عمر بن ابو سلمہ آگے بڑھے اور انہوں نے کہا، “میں نے اپنے کانوں سے جناب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے سنا ہے اور میرے دل نے اس کو محفوظ کیا ہے۔
اس کے بعد جناب امام زین العابدین علیہ الصلوۃ والسلام میری (ابان) کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا، “کیا یہ اکیلی حدیث ان تمام احادیث سے تیرے دل کی تسلی کے کافی نہیں؟ جن سے تمہارا دل مضطرب ہے؟ اے بھائی عبد القیس اللہ تعالی سے ڈرو، اگر بات واضح ہو جائے تو اسے قبول کرو ورنہ خاموش رہو۔ اور اس کے علم کو اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹا دو۔ تم زمین و آسمان سے بھی زیادہ فراخ مقام میں ہو۔” اس کے بعد ابان نے امام سے کافی باتیں دریافت کیں۔ بعض ایسی تھیں جو سمجھ میں آئیں اور بعض ایسی تھیں جو سمجھ میں نہ آئیں۔
Aban performed Hajj in the same year and presented himself in the service of Imam Zain-ul-Abideen (a.s). At that time, Abu Tufail Aamir bin Wathila (r.a), a companion of the Prophet (s.a.w), was present with the Imam (a.s). Abu Tufail was one of the best companions of Ameer ul Momineen Ali Ibn Abi Talib (a.s), and Umar bin Umm Salamah (r.a) was also present. I presented this book to Imam (a.s). He remained seated for three days, and each morning, Umar bin Umm Salamah and Aamir bin Wathila (r.a) would come and recite the book to Imam (a.s) (so that the other attendees could also hear it). Imam Ali Zain-ul-Abideen (a.s) said, “All these narrations are ours, and we know them.”
Aban said to the Imam, “May I be sacrificed for you. There are certain things in this book that have constricted my heart, for it mentions the destruction of the entire Ummah of Muhammad (s.a.w) except for you and your Shia. Especially, it mentions the doom of prominent Muhajireen, Ansar, and Tabi’een?” Imam Zain-ul-Abideen (peace be upon him) replied, “Brother from Abdul Qais, have you not heard the hadith of the Holy Prophet (a.s), in which he said, ‘The example of my Ahlul Bayt in my Ummah is like the Ark of Noah (a.s) in his Ummah. Whoever boarded the Ark was saved, and whoever turned away from it was drowned. And the example of my Ahlul Bayt (a.s) in my Ummah is like the Gate of Repentance (Bab-e-Hitta) for the children of Israel.'”
I said, “Yes, I have heard this hadith.” The Imam asked, “From whom did you hear it?” I replied, “This hadith is very famous, and I have heard it from over a hundred jurists. I heard it from Abu Dharr when he was holding the chain of the Kaaba and proclaiming this hadith of the Prophet (s.a.w) in a loud voice.” The Imam asked, “And who else have you heard it from?” I replied, “I heard it from Hasan Al Basri, and Miqdad heard it from Ameer ul Momineen (a.s), and also from Saeed bin Musayyab, Alqama bin Qais, Abu Dhiyab Al Janbi, and Abdur Rahman bin Abi Layla.” Abu Tufail and Umar bin Umm Salamah said, “By God, we also heard this hadith from Abu Dharr, Ameer ul Momineen (a.s), Salman al-Farsi, and Miqdad.” Then Umar bin Umm Salamah stepped forward and said, “I heard it directly from the Prophet (s.a.w) with my own ears, and my heart preserved it.”
After this, Imam Zain-ul-Abideen (a.s) turned toward me (Aban) and said, “Isn’t this single hadith sufficient to bring peace to your heart, despite all the other narrations that have disturbed you? O brother from Abdul Qais, fear Allah. If something becomes clear to you, accept it, and if it remains unclear, then remain silent and return its knowledge to Allah. You are in a space more vast than the heavens and the earth.” Afterward, Aban asked the Imam several questions, some of which he understood, and some of which remained beyond his comprehension.
أبان قد حج في تلك السنة، وتوجه إلى خدمة الإمام زين العابدين عليه الصلاة والسلام. وكان في مجلس الإمام في ذلك الوقت أبو الطفيل عامر بن واثلة، صحابي رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم، وكان من أفضل أصحاب أمير المؤمنين عليه الصلاة والسلام. وكان أيضاً عمر بن أم سلمة رضي الله عنها حاضراً في المجلس. قدمتُ الكتاب للإمام، وبقي الإمام ثلاثة أيام يتصفح الكتاب. في كل صباح كان يأتي عمر بن أم سلمة وعامر بن واثلة، ويقرآن الكتاب على الإمام (حتى يسمع الحاضرون أيضًا). قال الإمام علي زين العابدين عليه الصلاة والسلام: “كل هذه الأحاديث هي منّا ونحن نعرفها.”
أبان قال للإمام: “فداك نفسي، في هذا الكتاب بعض الأمور التي ضاقت بها صدري. ففيه ذكر لهلاك جميع أمة محمد صلى الله عليه وآله وسلم، باستثناءك أنت وشيعتك. خاصة من كبار المهاجرين والأنصار والتابعين!” فقال الإمام زين العابدين عليه الصلاة والسلام: “يا عبد القيس، ألم تسمع حديث رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم حيث قال: ‘مثل أهل بيتي في أمتي كمثل سفينة نوح في قومه. من ركبها نجا، ومن تخلف عنها غرق.’ ومثل أهل بيتي في أمتي مثل باب حطة في بني إسرائيل.”
قلت: “بلى، لقد سمعت هذا الحديث.” قال الإمام: “ممن سمعته؟” قلت: “هو حديث مشهور جدًا، سمعته من أكثر من مئة فقيه. وسمعته من أبي ذر رضي الله عنه وهو يمسك بسلسلة الكعبة ويصرخ به بصوت عالٍ عن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم.” فقال الإمام: “وممن بعده سمعته؟” قلت: “سمعته من الحسن البصري، ومن المقداد الذي سمعه من أمير المؤمنين عليه الصلاة والسلام. وسمعته أيضًا من سعيد بن المسيب، وعلقمة بن قيس، وأبو الضبيان الجنبي، وعبد الرحمن بن أبي ليلى.” فأبو الطفيل وعمر بن أم سلمة قالا: “والله، لقد سمعنا هذا الحديث من أبي ذر ومن أمير المؤمنين عليه الصلاة والسلام، ومن سلمان الفارسي، ومن المقداد.” ثم تقدم عمر بن أم سلمة وقال: “سمعت هذا الحديث بأذني من رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم، ووعاه قلبي.”
ثم توجه الإمام زين العابدين عليه الصلاة والسلام إليَّ (أبان) وقال: “أليس هذا الحديث وحده كافياً ليطمئن قلبك ويزيل اضطرابك؟ يا عبد القيس، اتق الله، فإذا وضحت لك الحقيقة فاقبلها، وإن لم تتضح فاصمت، ورد علمها إلى الله تعالى. فإنك في سعة أكبر من السماوات والأرض.” بعد ذلك، سألت الإمام عدة مسائل، فهمت بعضها ولم أفهم البعض الآخر.
MashaAllah very informative hadith.