ابو طفیل نے امیر المومنین علیہ الصلوۃ والسلام سے عرض کیا
سوره نمل کی آیت ، ۸۲
واذا وقع القول عليهم اخرجنا لهم دابة من الارض تكلمهم ان الناس كانوا باياتنا لا يوقنون
اور جب ان پر فرمان پورا ہونے کا وقت آجائے گا تو ہم ان کے لئے زمین سے ایک جاندار نکالیں گے جو ان سے گفتگو کرے گا کیونکہ لوگ ہماری نشانیوں پر یقین نہیں کرتے تھے۔
میں اس جاندار سے کیا مراد ہے؟ امیر المومنین علیہ الصلوۃ والسلام نے کہا، “اے ابو طفیل چھوڑو اس چیز کو۔” میں نے کہا اے امیر المومنین علیہ الصلوۃ والسلام میں آپ پر قربان جاوں مجھے اس بارے میں ضرور بتائیں۔ آپ نے کہا یہ وہ جان دار ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا ہے اور عورتوں سے نکاح کرتا ہے۔ یعنی انسان ہو گا۔ میں نے عرض کی وہ کون ہو گا امیر المومنین؟ آپ نے فرمایا وہ زمین کے قیام کا باعث ہے جس کی وجہ سے زمین قائم ہے۔ وہ اس امت کا صدیق، فاروق، رئیس اور ذوقرن ہے۔ یہ وہ ہے جس کے بارے میں اللہ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ رسول خدا کے ساتھ ایک گواہ ہے جو اسی کی جنس سے ہے۔ دوسری جگہ فرمایا ہے کہ جس کے پاس کتاب کا پورا علم ہے۔ پھر فرمایا کہ وہ سچ کے ساتھ آیا ہے۔ جس نے سچائی کی تصدیق کی۔ وہ میں ہوں۔ میرے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے علاوہ تمام لوگ اس وقت کافر تھے۔
ابوطفیل نے کہا امیر المومنین اس شخص کا نام لے کر بتائیں۔ امیر المومنین علیہ الصلوۃ والسلام نے جواب دیا اے ابو طفیل میں نے تمہیں نام لے کر بتا دیا ہے۔ اللہ کی قسم اگر میں اپنے شیعوں کو، جن کے ساتھ میں دشمنوں سے جنگ کرتا ہوں، یہ میرے عام شیعہ ہیں جنہوں نے میری اطاعت کا اقرار کیا ہوا ہے۔ اور وہ مجھے امیر المومنین کہتے ہیں۔ اور میرے مخالف سے جنگ کرنا جائز سمجھتے ہیں۔ میں نے ان سے کئی ماہ حق کی بعض باتیں بیان کی ہیں جو کتاب خدا میں موجود ہیں۔ وہ کتاب جو جبرائیل علیہ السلام، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس لائے تھے۔ اگر میں ان کو وہ تمام باتیں ظاہر کر دوں تو ان میں سے بہت زیادہ مجھ سے علیحدہ ہو جائیں گے۔
یہاں تک کہ ایک قلیل گروہ حق، جو تم اور تمہارے جیسے شیعوں کا ہو گا، جاوگے۔ پس یہ سن کر میں ڈر گیا۔ اور عرض کی، یا امیر المومنین، میں اور مجھ جیسے آپ کو چھوڑ جائیں گے یا آپ کے ساتھ ثابت قدم رہیں گے۔ آپ نے فرمایا کہ تم ثابت قدم رہو گے۔ ہمارا امر مشکل ہے (یعنی ہماری حقیقت کو سمجھنا مشکل ہے) اس کو تین اشخاص کے علاوہ نہ کوئی جانتا ہے اور نہ اس کے نزدیک پھٹک سکتا ہے۔ ایک مقرب فرشتہ، دوسرا وہ نبی جو رسالت کے مقام پر فائز ہو اور تیسرا وہ بندہ جس کے دل کا اللہ نے ایمان کے ساتھ لے لیا ہو۔ اے ابوطفیل، جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وفات پا گئے تو لوگ گمراہ اور جاہل ہو کر مرتد ہو گئے۔ مگر وہ لوگ ایمان پر قائم رہے جن کو اللہ تعالیٰ نے ہماری وجہ سے محفوظ رکھا۔
Abu Tufayl asked the Commander of the Faithful (peace and blessings be upon him), “Regarding the verse of Surah Naml, 82:
‘And when the word is fulfilled against them, We shall bring forth for them a creature from the earth that will speak to them, because mankind had no faith in Our signs.’
What is meant by this creature?” Ameer ul Momineen (a.s) said, “O Abu Tufayl, leave this matter.” I said, “O Ameer ul Momineen (a.s), may I be sacrificed for you, please explain it to me.” He replied, “It is a creature that eats food, walks in the markets, and marries women, meaning it will be a human being.” I asked, “Who will that be, O Ameer ul Momineen (a.s)?” He said, “He is the one upon whom the stability of the earth depends, and due to him, the earth remains firm. He is the Truthful, the Discriminator, the Chief, and the Two-Horned One of this nation. He is the one about whom Allah has said in the Quran: ‘And with the Messenger is a witness from among themselves.’ And in another place, He says, ‘And the one who has complete knowledge of the Book.’ And then He says, ‘The one who has come with the truth and has confirmed the truth.’ That is me. Except for me and the Prophet (s.a.w), all others were disbelievers at that time.”
Abu Tufayl said, “O Ameer ul Momineen (a.s), tell me clearly the name of this person.” Ali a.s replied, “O Abu Tufayl, I have told you his name explicitly. By Allah, if I were to disclose all the truths I have conveyed to my Shia those Shia who have fought battles alongside me against the enemies, those who have acknowledged my leadership and who call me Commander of the Faithful (Ameer ul Momineen), and consider fighting my opposition as lawful—I have shared some truths with them for months, which are written in the Book of Allah, the book that Gabriel (peace be upon him) brought to the Prophet (peace and blessings be upon him and his progeny). If I were to reveal everything to them, most of them would turn away from me.”
“Until only a small group of those who truly uphold the truth, like you and others like you, would remain.” Hearing this, I was frightened and asked, “O Ameer ul Momineen (a.s), will I and those like me abandon you, or will we remain steadfast with you?” He replied, “You will remain steadfast. Our matter is difficult (i.e., understanding our reality is difficult). Only three kinds of people can comprehend it or come close to understanding it: an angel who is near (to Allah), a prophet who has been granted prophethood, or a servant whose heart Allah has filled with faith. O Abu Tufayl, when the Prophet (s.a.w) passed away, people became astray and ignorant, turning back from the truth. Only those who Allah protected because of us remained firm in their faith.”
سأل أبو طفيل أمير المؤمنين عليه الصلاة والسلام عن قول الله تعالى في سورة النمل، الآية ٨٢:
“وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةً مِنَ الْأَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِآيَاتِنَا لَا يُوقِنُونَ”
فما المقصود بهذا الدابّة؟ قال أمير المؤمنين عليه الصلاة والسلام: “يا أبا طفيل، دع عنك هذا الأمر.” فقلت: “يا أمير المؤمنين، فداك نفسي، أخبرني عنها.” فقال: “هو دابة تأكل الطعام، وتمشي في الأسواق، وتنكح النساء، أي أنه سيكون إنسانًا.” قلت: “من سيكون ذلك يا أمير المؤمنين؟” قال: “هو القائم الذي به تقوم الأرض، وبه تستقر. هو الصدّيق، الفاروق، الرئيس، وذو القرنين من هذه الأمة. وهو الذي قال الله فيه في القرآن: (وَمَعَهُ شَاهِدٌ مِّنْ نَفْسِهِ)، وفي موضع آخر: (وَالَّذِي عِندَهُ عِلْمُ الْكِتَابِ)، وقال أيضًا: (الَّذِي جَاءَ بِالْحَقِّ وَصَدَّقَ بِهِ). ذلك أنا. لم يكن هناك أحد مؤمن في ذلك الوقت إلا أنا ورسول الله صلى الله عليه وآله وسلم، والباقون كانوا كفارًا.”
قال أبو طفيل: “يا أمير المؤمنين، وضّح لي اسم هذا الشخص.” قال أمير المؤمنين عليه الصلاة والسلام: “يا أبا طفيل، لقد أوضحت لك اسمه. والله، لو أنني أخبرت شيعتي الذين حاربوا معي الأعداء، هؤلاء الشيعة الذين أقرّوا بطاعتي ويسموني أمير المؤمنين، ويعتبرون أن القتال ضد من يعارضني جائزًا، لقد بيّنت لهم بعض حقائق الأمر التي وردت في كتاب الله، ذلك الكتاب الذي جاء به جبرائيل عليه السلام إلى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم. لو أفصحت لهم كل الحقائق، لابتعد عني أكثرهم.”
“حتى لا يبقى إلا مجموعة قليلة من أهل الحق، مثلما أنت ومن هم على شاكلتك.” فخفت وسألت: “يا أمير المؤمنين، هل سأكون أنا ومن هم مثلي ممن سيبتعد عنك أم سنبقى ثابتين معك؟” قال: “ستبقون ثابتين. أمرنا صعب، لا يعرفه ولا يدركه إلا ثلاثة: ملك مقرّب، نبي مرسل، أو عبد امتحن الله قلبه بالإيمان. يا أبا طفيل، عندما توفي رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم، ضل الناس، وجهلوا وارتدوا عن الحق، ولم يثبت إلا من حفظهم الله بنا.”